شعاع مہر سے خیرہ ہوئی نظر دیکھا

شُعاعِ مہْر سے خِیرہ ہُوئی نظر دیکھا
نہ راس آیا ہمیں جَلوۂ سَحر دیکھا



 خوشی سے غم کو کُچھ اِتنا قرِیب تر دیکھا
جہاں تھی دُھوپ وہیں سایۂ شجر دیکھا
جَلا کے سوئے تھے اہلِ وفا چراغِ وفا
کُھلی جو آنکھ اندھیرا شباب پر دیکھا
خِزاں میں گائے تھے جس نے بہار کے نغمے
اُسے بہار میں محرومِ بال و پر دیکھا
دُعائیں مانگی تھیں ہم نے بہار کی، لیکن
بہار آتے ہی بربادِیوں نے گھر دیکھا
وہی جو رشکِ گُلِستاں تھے کل گُلِستاں میں
اُنِھیں گُلوں کو اُگلتے ہُوئے شرر دیکھا
اعجاز رحمانی

Comments