اوجھل سہی نگاہ سے ڈوبا نہیں ہوں میں

اوجھل سہی نِگاہ سے ڈوبا نہیں ہوں میں
اے رات ہوشیار کہ ہارا نہیں ہوں میں
دَرپیش صبح و شام یہی کَشمکش ہے اب
اُس کا بَنوں میں کیسے کہ اپنا نہیں ہوں میں
مجھ کو فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں مگر
جِتنا بُرا سمجھتے ہو اُتنا نہیں ہوں میں
گرمی مرے شعور کی دیتی ہے مجھ کو شکل
قسمت کے سرد آنکھ کا لکھا نہیں ہوں میں
اِس طرح پھیر پھیر کہ باتیں نہ کیجیئے
لہجے کا رُخ سمجھتا ہوں بچہ نہیں ہوں میں
خوابوں کی سبز دُھند سی اب بھی ہے ہر طرف
لگتا ہے یوں کہ نیند سے جاگا نہیں ہوں میں
میری تو بات بات کی شاہد ہے کائنات
دل سے گھڑا ہوا کوئی قصہ نہیں ہوں میں
دل کو گواہ کرکے لکھا جو بھی کچھ لکھا
کاغذ کا پیٹ بھرنے کو لکھتا نہیں ہوں میں
مُمکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِ مُنافقت
دُنیا تیرے مزاج کا بَندہ نہیں ہوں میں
امجدؔ تھی بھیڑ ایسی کہ چلتے چلے گئے
گِرنے کا ایسا خوف تھا ٹِھہرا نہیں ہوں میں
امجد اسلام امجدؔ

Comments