اب سماعت ہی کہاں شعر سنائیں کیسے

اب سماعت ہی کہاں شعر سنائیں کیسے
تختۂ زنگ پہ ہم رنگ جمائیں کیسے
تُو گیا ہے تو تری یاد سے لگ بیٹھا ہے
دل کو ہم کارِ زمانہ میں لگائیں کیسے
دونوں اک شمع محبت تو جلا بیٹھے ہیں
سوچنا یہ ہے کہ روکیں گے ہوائیں کیسے
وہ تو مر جائے گا سنتے ہی بدلنا تیرا
بے وفا یار! بتا دل کو بتائیں کیسے
جس سے بھی بات کریں نیند کا عالم بولے
ایسے ماحول میں سوتوں کو جگائیں کیسے
دل تو آسائشِ دنیا سے اٹھا پاتے نہیں
لوگ اب عشق کے آزار اٹھائیں کیسے
ہم نے پیرائے بدل کر بھی محبت مانگی
بات بنتی ہی نہیں بات بنائیں کیسے
دردِ دل رنجِ زمانہ سے الگ رکھتے ہیں
دل کا دربار ہے دنیا میں لگائیں کیسے

شہزاد نئیر

Comments