اس دوشیزہ مٹی پر نقش کف پا کوئی بھی نہیں

اس دوشیزہ مٹی پر نقش کف پا کوئی بھی نہیں
جھڑتے پھول برستی بارش تیز ہوا کوئی بھی نہیں
یہ دیواریں اور دروازے سب آنکھوں کا دھوکا ہے
کہنے کو ہر باب کھلا ہے اور کھلا کوئی بھی نہیں
چہرے جانے پہچانے تھے روحیں بدلی بدلی تھیں
سب نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور ملا کوئی بھی نہیں
ایک سے منظر دیکھ دیکھ کر آنکھیں دکھنے لگتی ہیں
اس رستے پر پیڑ بہت ہیں اور ہرا کوئی بھی نہیں
اڑتا بادل چہرے بنتا اور مٹاتا جاتا ہے
لاکھوں آنکھیں دیکھ رہی تھیں لیکن تھا کوئی بھی نہیں
جس کے بیچ گھرا بیٹھا ہوں ڈھیر ہے بیتے لمحوں کا
سب میری جانب آئے ہیں اور گیا کوئی بھی نہیں
جلتی مٹی سوکھے کانٹے گہرے پانی تیکھے سنگ
سب خطرے پاؤں کے نیچے سر پہ بلا کوئی بھی نہیں
حرف لکھوں تو پڑھنے والے کیا کیا نوحے سنتے ہیں
کان دھروں تو ان حرفوں میں صوت و صدا کوئی بھی نہیں

شہزاد احمد

Comments