فقط کاغذ پہ لکھا بار اذیت اترا

فقط کاغذ پہ لکھا بار اذیت اترا
جب غزل کہہ لی تو زنگار طبعیت اترا
بھوک سے مرتے رہے خیمہ افلاس میں لوگ
آسماں سے نہ مگر خوانچہء نعمت اترا
ماں نے تعویذ بھی باندھا مرے بازو پہ مگر
پھر بھی سر سے نہ یہ سودائے محبت اترا
دل سرائے میں تمنائیں ہیں سر نیہوڑائے
کون بستی میں وہ مہمان مسرت اترا
اپنے قد کی اسے پہچان بہت مشکل تھی
سر سے جب طرہ دستار فضلیت اترا
میں نہ غم خوار شہنشہ نہ طلب گار کل
مجھ پہ کس واسطے آشوب قیامت اترا
بانوئے شہر ادب کے لیے اس عہد میں حرف
کتنا بے مایہ و محروم صداقت اترا
سر کی فصلوں کو بچا لے گئے سب لوگ مگر
ایک محسنؔ سر میدان ہلاکت اترا

محسن احسان

Comments