بہ وقت عصر جو کربل کی خاک بیٹھ گئی

سلام

بہ وقتِ عصر جو کربل کی خاک بیٹھ گئی
کئی دِلوں پہ، کٹے سر کی دھاک بیٹھ گئی

اِدھر زمیں پہ گرا ہاشمی چراغ، اُدھر
فلک پہ سوگ میں اک ذاتِ پاک بیٹھ گئی

بدن جو فرشِ عزا سے اٹھا تو روح وہیں
بہ صد نیاز، بہ صد انہماک، بیٹھ گئی

بہ یادِ سجدہِ تشنہ امام، سجدہ کیا
اور اتنی دیر سے اٹھا کہ ناک بیٹھ گئی

جو بے ردا تھی، اٹھی اور درونِ قصرِ دمشق
بڑے بڑوں کی ردا کر کے چاک، بیٹھ گئی

عدو حُسین کا ہو اور نشان چھوڑے زمیں؟
سنا ہے اس کی لحد، ٹھیک ٹھاک بیٹھ گئی

*عمیر نجمی*

Comments