آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم

آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم

تیرے ملنے کا اک لمحہ
بس اک لمحہ سہی – لیکن
وفا کا بے کراں موسم
ازل سے مہرباں موسم
یہ موسم آنکھ میں اترے
تو رنگوں سے دہکتی روشنی کا عکس کہلائے
یہ موسم دل میں ٹھہرے تو
سنہری سوچتی صدیوں کا گہرا نقش بن جائے
ترے ملنے کا اک لمحہ
مقدر کی لکیروں میں دھنک بھرنے کا موسم ہے
آج بھی شام اداس رہی
آج بھی تپتی دھوپ کا صحرا
ترے نرم لبوں کی شبنم
سائے سے محروم رہا
آج بھی پتھر ہجر کا لمحہ صدیوں سے بے خواب رتوں کی
آنکھوں کا مفہوم رہا
آج بھی اپنے وصل کا تارا
راکھ اڑاتی شوخ شفق کی منزل سے معدوم رہا
آج بھی شہر میں پاگل دل کو
تری دید کی آس رہی
مدت سے گم صم تنہائی، آج بھی میرے پاس رہی
آج بھی شام اداس رہی
محسن نقوی

Comments