ضرورت کے بھنور حالات کے پانی میں آتے ہیں

ضرورت کے بھنور حالات کے پانی میں آتے ہیں 
سو اونچے داموں والے لوگ ارزانی میں آتے ہیں



ستارے آسماں سے ٹوٹتے ہیں کس لیے اکثر 
بلندی سے یہ کیوں پستی کی مہمانی میںآتے ہیں

تم ان آنکھوں میں آنسو ڈھونڈتے ہوخشک موسم میں 
پرندے جھیل پر شامِ زمستانی میں آتے ہیں

فصیلوں پر کھڑی فوجوں کی آنکھیں پھوڑ کر اکثر 
کئی دشوار رستے شہر آسانی میں آتے ہیں

گریباں پھاڑنا پستی میں کچھ اچھا نہیں لگتا 
مزے وحشت کے صحراؤں کی ویرانی میں آتے ہیں 
اسعد بدایونی

Comments