وہ ستم دوست بنا دوست کسی کا نہ بنے

وہ ستم دوست بنا دوست کسی کا نہ بنے
کیا بنے بات جہاں دل سے تمنا نہ بنے



 مجھ میں بھی اک ترا جلوہ ہے وہ کافر جلوہ
دیکھ لے تُو بھی جو اے شمع! تو پروانہ بنے
دل ہے اور آپ کے وعدے کا یقیں، کیا کہیے
کوئی اتنا نہ بنائے، کوئی اتنا نہ بنے
تیرے وعدے نے عجب سحر کیا ہے مجھ پر
تُو بھی خود یاد دلائے تو تقاضا نہ بنے
آدمی ہوش میں اپنے جو رہے اے میکشؔ
گھُٹ کے مر جائے طلبگار کسی کا نہ بنے

میکش اکبر آبادی

Comments