واعظ بھی خفا مجھ سے بت بھی ہیں خفا مجھ سے

واعظ بھی خفا مجھ سے، بت بھی ہیں خفا مجھ سے
آخر وہ خطا ایسی سرزد ہوئی کیا مجھ سے



 یہ سر تِرے در پر تھا، یا دار کا زیور تھا
یارب! درِ باطل پر سجدہ نہ ہوا مجھ سے
اِ+ک نالۂ پیہم ہوں میں تجھ سے جدا ہو کر
کیا تُو بھی پشیماں ہے اب ہو کے جدا مجھ سے
یہ دیر و حرم والے دشمن تھے مری جاں کے
اب پوچھنے آتے ہیں کیوں تیرا پتا مجھ سے
ہے جامِ محبت میں تاثیرِ بقا ایسی
ترساں ہے فنا مجھ سے، لرزاں ہے قضا مجھ سے
ہر چند گدا ہوں میں، بے برگ و نوا ہوں میں
تصویرِ محبت میں ہے رنگِ وفا مجھ سے
مستِ مئے حق ہوں میں، الفت کا سبق ہوں میں
بے زار ہیں صہبائ سب اہلِ ریا مجھ سے

اثر صہبائی

Comments