یہ مانا زندگی میں غم بہت ہیں

یہ مانا زندگی میں غم بہت ہیں
ہنسے بھی زندگی میں ہم بہت ہیں



 تری زلفوں کو کیا سلجاؤں اے دوست
مِری راہوں میں پیچ و خم بہت ہیں
نہیں ہے منحصر کچھ فصلِ گُل پر
جنوں کے اور بھی موسم بہت ہیں
غبار آلود چہروں پر نہ جانا
انہیں میں کیقباد و جَم بہت ہیں
کروں کیا شکوہ تیری بے رخی کا
کہ دل کو بے سبب بھی غم بہت ہیں
مجھے کچھ ساز ہے نشتر سے، ورنہ
مِرے زخموں کے یاں مرہم بہت ہیں
قفس یہ جان کر توڑا تھا میں نے
قفس کو توڑ کر بھی غم بہت ہیں
کروں کیا چارہ ان آنکھوں کا میکشؔ
کہ ان کے سامنے پُر نم بہت ہیں

میکش اکبر آبادی

Comments