خواہاں ترے ہر رنگ میں اے یار ہمیں تھے

خواہاں ترے ہر رنگ میں اے یار ہمیں تھے
یوسف تھا اگر تُو، تو خریدار ہمیں تھے
بیداد کے، محفل میں، سزا وار ہمیں تھے
تقصیر کسی کی ہو، گنہ گار ہمیں تھے
وعدہ تھا ہمیں سے لبِ بام آنے کا ہونا
سایہ کی طرح سے پسِ دیوار ہمیں تھے
کنگھی تری زلفوں کی ہمیں پر تھی مقرّر
آئینہ دکھاتے تجھے ہر بار ہمیں تھے
نعمت تھی ترے حسن کی حصّے میں ہمارے
تو کانِ ملاحت تھا، خریدار ہمیں تھے
سودا زدہ زلفوں کا نہ تھا اپنے سوا ایک
آزاد دو عالم تھا، گرفتار ہمیں تھے
تو اور ہم اے دوست تھے یک جان دو قالب
تھا غیر، سوا اپنے جو تھا، یار ہمیں تھے
بیمارِ محبت تھا سوا اپنے نہ کوئی
اک مستحقِ شربتِ دیدار ہمیں تھے
بے اپنے بہلتی تھی طبیعت نہ کسی سے
دل سوز ہمیں تھے ترے، غم خوار ہمیں تھے
اک جنبشِ مژگاں سے غش آتا تھا ہمیں کو
دو نرگسِ بیمار کے بیمار ہمیں تھے
جب چاہتے تھے لیتے تھے آغوش میں تم کو
مجبور سے رہ جاتے تھے، مختار ہمیں تھے
ہم سا نہ کوئی چاہنے والا تھا تمہارا
مرتے تھے ہمیں، جان سے بیزار ہمیں تھے
بد نام محبت نے تری ہم کو کیا تھا
رسوائے سر کوچہ و بازار، ہمیں تھے
دل ٹھوکریں کھاتا تھا نہ ہر گام کسی کا
اک خاک میں ملتے دمِ رفتار ہمیں تھے
بھڑکانے سے آتشؔ کو جلانے لگے، یا تو
الطاف و عنایت کے سزا وار ہمیں تھے
خواجہ حیدر علی آتش

Comments