ٹھہرنا بھی مرا جانا شمار ہونے لگا

ٹھہرنا بھی مرا جانا شمار ہونے لگا
پڑے پڑے میں پرانا شمار ہونے لگا
وہ سنگ جس کو حقارت سے رات بھر دیکھا
سحر ہوئی تو سرھانا شمار ہونے لگا

پھر ایسے ہاتھ سے مانوس ہو گئی تسبیح
گنے بغیر بھی دانہ شمار ہونے لگا
بہت سے سانپ تھے اس غار کے دہانے پر
دل اس لیے بھی خزانہ شمار ہونے لگا
ہجوم سارا رہا کر دیا گیا لیکن
مرا ہی شور مچانا شمار ہونے لگا
بھلا ہو ان کا جو مجھ کو ترا سمجھتے ہیں
مرا بھی کوئی ٹھکانہ شمار ہونے لگا

اظہر فراغ

Comments