کھلی کھلی سی محبت ہرا بھرا دکھ ہے

کھِلی کھِلی سی محبت ہرا بھرا دکھ ہے
مِرے خدا یہ جدائی کمال کا دُکھ ہے
ابھی رہے گا یہ عالم لپٹ کے رونے کا
وداعِ یار درختو ، نیا نیا دکھ ہے
مجھے بتاؤ نہیں جھیلنے دو پھر اک بار
میں جانتا ہوں محبت بہت بڑا دکھ ہے
ابھی سے دوست دعا دے رہے ہیں جینے کی
ابھی تو میں نے کہا بھی نہیں کہ کیا دکھ ہے
کوئی لباس کفن کے سوا نہیں جچتا
مِرے وجود میں ایسا سِلا ہُوا دکھ ہے
نصیب ہو نہ ہو اگلے پڑاؤ پر مہلت
یہیں دکھا دو جو دل میں پڑا ہوا دکھ ہے
علاج یہ ہے کہ نشتر لگا دیا جائے
لہو نہیں یہ رگ و پے میں دوڑتا دکھ ہے
تمھیں جہاں بھی نظر آئے رو لیا کرنا
کسی بھی شہر میں رہنا مِرا پتا دکھ ہے
لیاقت علی عاصم

Comments