ہمارے شوق کی یہ انتہا تھی​

ہمارے شوق کی یہ اِنتہا تھی​
قدم رکھا کہ منِزل راستہ تھی​

کبھی جو خواب تھا، وہ پا لیا ہے​
مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی​

جسے چُھو لوں میں وہ ہو جائے سونا​
تجھے دیکھا تو جانا بددُعا تھی​

محبت مر گئی مجھ کو بھی غم ہے​
میرے اچھے دِنوں کی آشنا تھی​

میں بچپن میں کھلونے توڑتا تھا​
میرے انجام کی وہ ابتداء تھی​

مریضِ خواب کو تو اب شفا ہے​
مگر دنیا بڑی کڑوی دوَا تھی​

بچھڑ کر ڈار سے بن بن پھرا وہ​
ہرن کو اپنی کستوری سزا تھی​

جاوید اختر

Comments