حاصل ہے تیرے عشق میں تسکیںِ جاں مجھے

حاصل ہے تیرے عشق میں تسکیںِ جاں مجھے
جس دن سے مل گیا ہے ترا آستاں مجھے
جھک کر کرنے لگے آسماں سلام مجھے
پہنچا دیا ہےترے کرم نے کہاں مجھے

دامن نہ مجھ سے چھوٹے آپ کا کسی طرح
سرکار چاہے چھوڑ دے سارا جہاں مجھے
پھر کیوں نہ بے نیازِ غمِ دو جہاں رہوں
تُو ہے تو کس لیے ہو غم دو جہاں مجھے
ملنے کو مہرباں تو اور بھی ملے مگر
تم سا کہیں نہ ملا کوئی مہرباں مجھے
اللہ جانے کس کی تجلی نظر میں ہے
بھاتا نہیں ہے جلوۂ کون و مکاں مجھے
دل کو ترا ملا ل رہا روزِ عید بھی
گزری تیرے بغیر خوشی بھی گراں مجھے
گر چاہتے ہیں آپ ضرور آزمائیے مجھے
منظور عشق میں ہے ہراک امتحاں مجھے
پرنؔم غمِ حیات گلے سے لگا تو لوں
لیکن غمِ حبیب سے فرصت کہاں مجھے

پرنم الہ آبادی

Comments