کھلی نگاہوں سے دیکھا یہ خواب عید کے دن

کھلی نگاہوں سے دیکھا یہ خواب عید کے دِن
پڑھیں وُہ زانو پہ میرے کتاب عید کے دِن

خدایا ہجر گَزیدوں کا یہ سہارا بنے
میں لکھ رہا ہوں جدائی کا باب عید کے دِن

صنم کا نام نہ تم جھوم کر بتا دینا
ستم زَدو! ذِرا ہلکی شراب عید کے دِن

حسین ہاتھوں نے جادُو حنا کا پہنا ہے
جمالِ یار پہ صدقے گلاب عید کے دِن

ذِرا سا آپ بھی شرمانا چھوڑئیے صاحب
ذِرا سے ہوتے ہیں سب ہی خراب عید کے دِن

ہِلالِ عید کا منہ چومو اِس کے آنے سے
زَمیں پہ دیکھے کئی ماہتاب عید کے دِن

گداز پاؤں اَبھی پالکی سے نکلا تھا
حسین ہو گئے سب آب آب عید کے دِن

گلابی رَنگ کی ظالم سے کی جو فرمائش
گلابی رَنگ کا پہنا نقاب عید کے دِن

کتاب بھیجی اُنہیں ’’عید ملنا واجب ہے‘‘
وُہ سب سے عید ملے بے حجاب عید کے دِن

کتاب بھیج تو دُوں قیس ، ’’بوسہ واجب ہے‘‘
نہ جانے کیا بنے اِس کا جواب عید کے دِن

شہزاد قیس

Comments