کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

میں‌جب اپنے گاؤں سے باہر نکلا تھا
ہر رستے نے میرا رستہ روکا تھا

مجھ کو یاد ہے جب اس گھر میں آگ لگی
اوپر سے بادل کا ٹکڑا گزرا تھا

شام ہوئی اور سورج نے اک ہچکی لی
بس پھر کیا تھا کوسوں تک سناٹا تھا

اس نے اکثر چاند چمکتی راتوں میں
میرے کندھے پر سر رکھ کر سوچا تھا

میں نے اپنے سارے آنسو بخش دئیے
بچے نے تو ایک ہی پیسہ مانگا تھا

شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

لوگوں نے جس وقت ستارے بانٹ لیے
اسلم اک جگنو کے پیچھے بھاگا تھا

اسلم کولسری

Comments