تھوڑا سا مسکرا کے نگاہیں ملا ئیے

تھوڑا سا مسکرا کے نگاہیں ملا ئیے
مجھ کو مری حیات کا مقصد بتائیے
مجھ سے بھی کچھ حضور تعلق تھا آپ کا
یوں بے مروتی سے نہ دامن چھڑائیے
شاید کسی مقام پہ میں کام آ سکوں
مجھ کو بھی ساتھ لیجئے تنہا نہ جائیے
گزرے گا اس طرف سے بھی اک دن ہجومِ گل
ہر چند آپ راہ میں کانٹے بچھائیے
ناصر اداسیاں تو رہیں گی یوں ہی مدام
ڈھلنے لگی ہے رات کوئی گیت گائیے

ناصر زیدی

Comments