میں تو سودا لیے پھرا سر میں

مَیں تو سودا لیے پھرا سَر میں
خاک اُڑتی رھی مِرے گھر میں
نہ ھُوا توُ مجھے نصیب، تو کیا
میں ھی اپنے نہ تھا مُقدر میں
لے کے سمتوں کی ایک بے سمتی
گُم ھُوا ھُوں میں اپنے پیکر میں
ڈوُبیے اِس نِگہ کے ساتھ کہاں
دُھول ھی دُھول ھے سمندر میں
چاھیے کچھ ھُنر کو اُس کا خیال
ھے جو بے مَنظری سی مَنظر میں
مانگ لے کوئی یاد پتّھر سے
وقت پتھرا گیا ھے پتّھر میں
کیسے پہنچے غَنیم تک یہ خبر
گِھر گیا ھُوں میں اپنے لشکر میں
ایک دیوار گِر پڑی دل پر
ایک دیوار کِھنچ گئی گھر میں

جون ایلیا

Comments