وقت بتاؤ

"وقت بتاؤ"

پچھلی بار ملے جب ہم تم
باتیں کرتے کرتے تم نے
مجھ سے بولا
"وقت بتاؤ"
تب تو میں نے بن سوچے ہی
بول دیا کہ
چار بجے ہیں
تم نے حیرت اور تجسس کے ملتے جلتے جذبات میں اٹھتے اٹھتے شور مچایا
اوہ خدایا،
جانا ہے اب،
میں نے بھی اک لا پرواہی سے سوچا کہ
جانا ہو گا،
اور خدا حافظ کہہ کر تم کو مسکان سے رخصت کر کے ہنستے ہنستے لوٹ گیا تھا
رستے میں پھر ہول اٹھے کہ
ایسا پہلے ہوا نہیں کہ
تم مجھ سے یوں وقت کا پوچھو
یا پھر چار بجے ہی تم یوں
واپس جانے کا کہہ ڈالو
ایسا پہلے ہوا نہیں کہ
میں پھر ملنے کا بولوں تو
تم ہنس کر بس ٹال دو مجھ کو
تم تو وقت کا سوچے بن ہی
مجھ سے ملکر
گھنٹوں، پہروں بیٹھی رہتی،
ایسے کام کبھی بھی تم کو یاد نہ آیا
ایسے الٹے سیدھے وہموں کو
دل سے باہر کرنے کی خاطر
میں نے اس کو کال ملائی
نہیں ملی پھر
اس کے ہر ہر نمبر پر پھر کال ملائی
وہ بھی جو کچھ عرصہ پہلے بند کیا تھا
وہ بھی جو شاید کسی سہیلی کا تھا
وہ بھی جو کہتی تھی کہ بس
نیٹ پیکج کی سم رکھی ہے
سارے نمبر
سارے ممکن ربط کے رستے
چھان لیے پر
نہیں ملی پھر
تب سے جب بھی کوئی مجھ سے
یوں پوچھے کہ
"وقت بتاؤ"
نہیں بتاتا
ڈر لگتا ہے

وجاہت باقی

Comments