دہلیز پر کھڑا ہوں رسالت مآب کی

قدموں سے پھوٹتی ہے چمک ماہتاب کی
دہلیز پر کھڑا ہوں رسالت مآبﷺ کی
ہے چہرۂ رسولﷺ نگاہوں کے سامنے
تفسیر پڑھ رہا ہوں ام الکتاب کی

اس وادئ بہارِ کا دامن ہے ہاتھ میں
مٹی ہے جس کے سامنے خوشبو گلاب کی
مجھ بے نوا فقیر کی آنکھیں سوال ہیں
خیرات مانگتی ہے سماعت جواب کی
گھر جس کو پانیوں پہ بنانے سکھاۓ تھے
رلتی ہے ساحلوں پر وہ امت جناب کی
روضے کی جالیوں سے جکڑ لیجے مجھے
زنجیر کاٹ دیجے میرے اضطراب کی
سویا ہوا ہوں آپؐ کے قدموں کی خاک پر
تعبیر بھی ہو کاش یہی میرے خواب کی
سانسیں ہیں پل صراط مظفرؔ کے واسطے
دنیا بھی اک مثال ہے روزِ حساب کی

مظفر وارثی

Comments