پھر وہ دریا ہے کناروں سے چھلکنے والا

پھر وہ دریا ہے کناروں سے چھلکنے والا
شہر میں کوئی نہیں آنکھ جھپکنے والا
جس سے ہر شاخ پہ پھوٹی ترے آنے کی مہک
آم کے پیڑ پہ وہ بور ہے پکنے والا
یوں تو آنگن میں چراغوں کی فراوانی ہے
بجھتا جاتا ہے وہ اک نام چمکنے والا
پھر کہانی میں نشانی کی طرح چھوڑ گیا
دل کی دہلیز پہ اک درد دھڑکنے والا
ہجر ٹکسال میں ڈھالے گا غزل کے سکے
تیری محفل میں کبھی بول نہ سکنے والا

غلام محمد قاصر

Comments