حبس تنہائی نہ دے حبس میں کیا رکھا ہے

سید آل احمدؔ
حبسِ تنہائی نہ دے حبس میں کیا رکھا ہے
دِل سا انگارہ تو پہلے ہی بُجھا رکھا ہے
اے مِرے شہر کی بے رحم زمیں کُچھ تو بتا
تُو نے ہر موڑ پہ کیوں سنگِ جفا رکھا ہے
اِک تِرا دُکھ ہو تو چہرے پہ بکھیرا جائے
کِتنے غم ہیں جنہیں سینے سے لگا رکھا ہے
آپ کا اپنا تو اس میں کوئی پتھر ہی نہیں
کِس لیے دوش پہ کُہسار اُٹھا رکھا ہے
تُو مِری آنکھ کے گرداب کے نزدیک نہ آ
اِس میں وہ زہر ہے جو تُجھ سے چُھپا رکھا ہے
رکھ رکھاؤ کے چراغوں کی لویں بُجھ جائیں
اِس توقع کی اذیت میں بھی کیا رکھا ہے
مَیں تِرے رنج کے پتھراؤ سے گھبراتا ہُوں
ورنہ اِس جِسم کو زخموں سے سجا رکھا ہے
تو مِرے کرب کے احساس سے کب گُزرا ہے
یہ تو وہ دُکھ ہے جو دھڑکن میں چُھپا رکھا ہے
خود کو اب اِتنی اذیت بھی نہ دیجے احمدؔ
سوچیے شدتِ احساس میں کیا رکھا ہے

Comments