چشم ساقی نے عجب کھیل رچا رکھا ہے

چشمِ ساقی نے عجب کھیل رچا رکھا ہے
کوئی رِند، کوئی مئے خوار بنا رکھا ہے
جو پھنسا پھر نہ کبھی اس نے رہائی مانگی
تیری زلف نے عجب جال بچھا رکھا ہے
حسن ہو، عشق ہو، دونوں کا اثر یکساں ہے
چیز ہے ایک ، مگر نام جدا رکھا ہے
چوم لیتی ہیں لٹک کر کبھی چہرہ کبھی لب
تم نے زلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے
تیری مخمور نگاہوں سے ہے رونق ساری
ورنہ ساقی تیرے مئے خانے میں کیا رکھا ہے
میری نظروں میں کوئی کیسے جچے اے ساجد
نسبت یار نے مغرور بنا رکھا ہے
محمد شبیر ساجد مہروی

Comments