اکیلے سالگرہ مَیں نے کب منائی تھی

اکیلے سالگرہ مَیں نے کب منائی تھی!
اُداسی بتّیاں، تنہائی کیک لائی تھی



 پھر ایک روز وہی دُھوپ میرے کام آئی
جو تیرے سائے سے چُھپ کر کبھی بچائی تھی
سیاہی جاتی نہیں میرے ہاتھ سے اب تک
کسی چراغ سے کچھ روشنی چرائی تھی
خریدنا پڑی آنکھوں سے مہنگے داموں پر
سماعتوں نے جو آواز بیچ کھائی تھی
مَیں ایک شام ترا ہجر لے کے گھر لوٹا
یہ میری زندگی کی اوّلیں کمائی تھی
ملال مُٹھّی میں رہتا تھا ہاتھ جھاڑ کے بھی
کبھی غضب کی مرے ہاتھ میں صفائی تھی
جُھلسنا چاہتی ہے آج خود ہی وہ تصویر
جسے گلہ تھا : مجھے آگ کیوں دکھائی تھی؟
غم اپنی اپنی درانتی سنبھالے آ پہنچے
پھر آج مجھ میں کسی فصل کی کٹائی تھی
سعید شارق

Comments