بدن کے طاقچے میں گرد ہے گزرے زمانوں کی

بدن کے طاقچے میں گرد ہے گزرے زمانوں کی
بشارت دے کوئی شمع ہوس آئینہ خانوں کی

اگرچہ قافلہ رخصت ہوئے مدت ہوئی لیکن
صدائیں دشت میں زندہ ہیں اب بھی سار بانوں کی

ابھی تو میں کسی دیوار پر تکیہ نہیں کرتا
ضرورت دھوپ کے موسم میں ہوگی سائبانوں کی

اصولوں سے زیادہ جان پیاری سب کوہوتی ہے
سو میں نے بھی قصیدے شان میں لکھے کمانوں کی
اسعد بدایونی

Comments