سرخ چمن زنجیر کیے ہیں سبز سمندر لایا ہوں

سرخ چمن زنجیر کیے ہیں سبز سمندر لایا ہوں
میں تو دنیا بھر کے منظر آنکھوں میں بھر لایا ہوں
جنگل تھے اور لوگ پرانے سوگ پہن کر سوتے تھے
ایک انوکھے خواب سے اپنی جان چھڑا کر لایا ہوں
میں اتنا محتاج نہیں ہوں تو اتنا مایوس نہ ہو
آج برہنہ چشم نہیں اشکوں کی چادر لایا ہوں
صرف نشاط انگیز فضا میں لہجے کی تہذیب ہوئی
دیکھ اپنے نوحوں کے علم نغموں کے برابر لایا ہوں
ساقی یادوں کی فصدوں سے جیتا جیتا خون بہے
میں رنگوں کی فصلیں کاٹ کے آپنے گھر لایا ہوں
ساقی فاروقی

Comments