سارا باغ الجھ جاتا ہے ایسی بے ترتیبی سے

سارا باغ اُلجھ جاتا ہے ایسی بے ترتیبی سے
مجھ میں پھیلنے لگ جاتی ہے خوشبو، اپنی مرضی سے

ہر منظر کو مجمع میں سے، یوں اُٹھ اُٹھ کر دیکھتے ہیں
ہو سکتا ہے شہرت پالیں، ہم اپنی دلچسپی سے

اِن آنکھوں سے دو اِک آنسو ٹپکے ہوں تو یاد نہیں
ہم نے اپنا وقت گزارا، ہر ممکن خاموشی سے

برف جمی ہے منزل منزل، رستے آتش دان میں ہیں
بیٹھا راکھ کرید رہا ہوں، میں اپنی بیساکھی سے

خوابوں کے خوش حال پرندے، سر پر یوں منڈلاتے ہیں
دُور سے پہچانے جاتے ہیں، ہم اپنی بے خوابی سے

دِل سے نکالے جا سکتے ہیں، خوف بھی اور خرابے بھی
لیکن ازل، ابد کو عادلؔ، کون نکالے بستی سے

ذوالفقار عادل

Comments