آخری شب ہوں شہر زاد

آخری شب ہوں، شہر زاد
میں تجھے کیوں نہیں ہوں یاد

ایسے ملی وہ شب مجھے
جیسے کسی سخن کو داد

دنیا بدل گئی مری
دنیا سے معذرت کے بعد
میرے لیے تو ہے یہاں

شہر سے بے گھری مراد
بادِ چہار سمت سے

مجھ میں کھِلا گلِ تضاد

برف پگھل رہی ہے بس
اپنی جگہ ہے اِنجماد

کوزہ گری ہے دشت کی
گرد نہیں یہ گرد باد

جیسی فلک پہ خامشی
ویسا زمین پر فساد

کہنا ہے اور کچھ مجھے
اِس سے خلل نہیں مراد

کیسا مرض ہے، صاحبو
چارہ گری پہ اعتقاد

کرتا ہوں آرزو کا وِرد
کہتا ہوں خود کو خیر باد
ذوالفقار عادل

Comments