جتنے بھی سخنور ہیں سبھی مہر بہ لب ہیں

جتنے بھی سخنور ہیں سبھی مہر بہ لب ہیں
اے دوست! تیرے شہر کے آداب عجب ہیں




 بے رشتۂ زنجیر تیرا در ہے تو کیا ہے
ہم منتظرِ عدلِ جہانگیر ہی کب ہیں
اے محتسبِ شہر! نہیں تجھ سے شکایت
ہم خود ہی دل و جاں کی تباہی کا سبب ہیں
یہ اہلِ وفا کون ہیں، اے کوچۂ قاتل
جان نذرِ وفا کر کے بھی بیداد طلب ہیں
اے واردِ نو! ہم پہ نہ کر اتنا بھروسا 
ہم لوگ بھی دریوزہ گرِ نام و نسب ہیں
اب دیکھئے کس کس پہ تیرے غم کا کرم ہو
ورنہ, تیری چاہت کے گنہگار تو سب ہیں
سورج کی طرح ہم پہ مسلط ہیں کئی لوگ
یہ بات الگ ہے کہ وہ پروردۂ شب ہیں
محسنؔ! ہمیں معلوم ہے ہر غم کی حقیقت 
ہم حلقۂ ماتم میں بھی مصروفِ طرب ہیں

محسن نقوی

Comments