قہقہوں کے تیر برسائے تو گھائل میں بھی تھا​

قہقہوں کے تیر برسائے تو گھائل میں بھی تھا​
اشک جب وہ بانٹنے نکلا تو سائل میں بھی تھا​


رات بھر لڑتا رہا ہوں باغیوں کی فوج سے​
صبح دم دیکھا تو خود اپنے مقابل میں ‌بھی تھا​

کفر تھا سورج جہاں اور روشنی مصلوب تھی​
اس جہانِ سرد میں اک برف کی سل میں بھی تھا​

وہ بھی تھا دشمن مرا ، مجرم مرا ، قاتل مرا​
اپنا دشمن ، اپنا مجرم ، اپنا قاتل میں بھی تھا​

چاند پر اپنی سیاھی پھینکنا پھر ناچنا ​
جشن اندھی رات کا تھا اور شامل میں بھی تھا​

حبس اتنا تھا کہ دی وحشی ہواؤں کو صدا ​
پھر وہاں زخمی شجر تھے اور گھائل میں بھی تھا​

کیسے ہوتیں پھر بیاض دل کی تفسیریں رشید​
وہ بھی لب بستہ تھا اور کچھ حرف مشکل میں بھی تھا ​

رشید قیصرانی

Comments