اور اس شہر گراں مایہ سے کیا لیتا ہوں

اور اس شہرِ گراں مایہ سے کیا لیتا ہوں
ایک دو چہرے دو آنکھوں  سے کما لیتا ہوں


یہ بھی آغازِ محبت میں بہت ہے مجھ کو
دیکھ لیتا ہوں تجھے ہاتھ لگا لیتا  ہوں
تجھ سے ملتے ہوئے اب دل تو بہت دُکھتا ہے
دل دُکھاتا ہوں , دُکھے دل  کی دعا لیتا ہوں
حبس میں روشنی کی اتنی ضرورت تو نہیں
میں چراغوں کے بہانے سے ہَوا لیتا  ہوں
ایک اُمید کو مرنے نہیں دیتا شب بھر
اک دِیا روز سرِ عام بنا لیتا  ہوں
انجم سلیمی

Comments