جی رہا ہوں میں اس دیار سے دور

جی رہا ہوں مَیں اُس دیار سے دُور
چارہ جُو جیسے چارہ کار سے دور

ہوں سراپائے حسرتِ دیدار
آج میں شہرِ شہریار سے دور

آبجو کی طرح ہوں سر گرداں
نکل آیا ہوں کوہسار سے دور

اک بگولا ہوں دشتِ غربت میں
قریۂ راحت و قرار سے دور

اک گلِ حیرت و ملال ہوں
مسکرایا ہوں شاخسار سے دور

وہم ہوں، خواب ہوں، خیال ہوں میں
بے حقیقت ہوں کوئے یار سے دور

لب پہ آیا ہوا سوال ہوں میں
محفل یارِ رازدار سے دور

تیر کھایا ہوا غزال ہوں میں
غمگسارانِ جانثار سے دور

گم ہوں یادِ حبیبﷺ میں تائب
ؔفکرِ فردا کے خلفشار سے دور


حفیظ تائب

Comments