جو میں مروں گا تو ساتھ میرے نہیں مرو گی

جو میں مروں گا تو ساتھ میرے نہیں مرو گی

قسم اٹھاؤ کہ اب محبت نہیں کرو گی

تو کیا کہو گی کہ شہزادہ نہیں ملا تھا

تو اپنے بچوں سے ذکر میرا نہیں کرو گی

میں گاؤں کا ہوں سو ڈر رہا ہوں جدائیوں سے

تو شہر کی ہے میں جانتا ہوں نہیں ڈرو گی

عجیب ضدی ہو کل ہی ہونٹوں پہ پھول رکھے

اور آج ہاتھوں پہ ہاتھ تک بھی نہیں دھرو گی



گھروں میں مرجائیں سارے پیاسے تری بلا سے

تو میرے ہوتے کنویں سے پانی نہیں بھرو گی

احمد عطاءاللہ

Comments