ذرا سا شر تھا اگر خیر سے نکل جاتا

ذرا سا شر تھا اگر خیر سے نکل جاتا
تعلقات کا مفہوم ہی بدل جاتا
کوئی سنہری کرن روز ہم بنا لیتے
یہ برف ہوتا ہوا شہر کچھ پگھل جاتا
کسی شجر پہ محبت سے ہاتھ رکھ دیتے
تو گھونسلوں پہ مسلّط عذاب ٹل جاتا
تِرے نفیس عمامے کے پیچ یوں کھُلتے
مسافروں کے لیے سائباں میں ڈھل جاتا
میں سبز بیل کے مانند پھیلتی ہر سُو
سفید اُونچے ستونوں پہ میرا بَل جاتا
کپاس چُنتی ہوئی عورتیں سُکھی ہوتیں
جہاں جہاں یہ زمیں ہے کساں کا ہَل جاتا
تنے سے ٹیک لگائے مناتے شام ِ وفا
تو رات رات میں سارا درخت پھل جاتا
دعائے تازہ خلاؤں میں روز بھر دیتے
تو کس طرح نا عناصر کا یہ خلل جاتا
گھروں میں پھیلتی جاتی محبتوں کی مہک
مغائرت کا دھواں خود بہ خود نکل جاتا
ہم ایک دوسرے کی بات رکھ لیا کرتے
یہ رکھ رکھاؤ سبھی فاصلے نگل جاتا
حمیدہ شاہین

Comments