بشارتوں کی نوید ہم ہیں محبتوں کے نقیب ہم ہیں

بشارتوں کی نوید ہم ہیں، محبتوں کے نقیب ہم ہیں
رہِ طلب میں نگارِ یکتا سے دور تم ہو، قریب ہم ہیں
تمہاری نبضیں ہمارے دم سے جواز ڈھونڈیں گی زندگی کا
کہ لکھنے والے نے لکھ دیا ہے، مریض تم ہو، طبیب ہم ہیں

حریمِ جاناں کو جانے والے تمام رستے ہمی نے کھولے
تمہی تھے پہرے بٹھانے والے، غنیم تم ہو، حبیب ہم ہیں
ہمارا مسلک سبھی سے الفت، تمہارا شیوہ سبھی سے نفرت
معاملاتِ دل و نظر میں، عجیب تم ہو، عجیب ہم ہیں

رشید قیصرانی

Comments