مسکن وہیں کہیں ہے وہیں آشیاں کہیں

مسکن وہیں کہیں ہے وہیں آشیاں کہیں

دو آڑھے ترچھے رکھ لیے تنکے جہاں کہیں

پہرا بٹھا دیا ہے یہ قیدِ حیات نے

سایہ بھی ساتھ ساتھ ہے جاؤں جہاں کہیں

جاتے کدھر ہو تم صفِ محشر میں خیر ہے

دامن نہ ہو خدا کے لیے دھجیاں کہیں

بس مجھ کو داد مل گئی محنت وصول ہے

سن لے غزل یہ بلبلِ ہندوستاں کہیں

 شاعرؔ وہ آج پھر وہیں جاتے ہوئے ملے

دشمن کے سر پہ ٹوٹ پڑے آسماں کہیں

آغا شاعر قزلباش

Comments