جانب زنجیر گیسو پھر کھنچا جاتا ہے دل

جانب زنجیر گیسو پھر کھنچا جاتا ہے دل

دیکھیئے اب میرےسر پر کیا بلا لاتا ہے دل

لوگ کیوں کر چھوڑ دیتے ہیں محبت دفعتا

میں تو جب یہ قصد کرتا ہوں مچل جاتا ہے دل

رکھ کے تصویر خیالی یار کی پیشِ نظر

رات بھر شبِ فرقت میں مجھ کو تڑپاتا ہے دل

داغ ہائے سینہ گل ہیں آہَ سرد اپنی نسیم

گلشنِ ہستی میں کیا اچھی ہوا کھاتا ہے دل

بارگاہِ عشق کہیئے تیرے دولت خانے کو

جو کوئی آتا ہے یاں تجھ سے لگا جاتا ہے دل

خوف کے پردے میں چھپ جاتی ہے جانِ ناتواں

عاشقی کے معرکے میں کام آجاتا ہے دل

ساتھ ساتھ اپنے جنازے کے یہ چلاتی تھی روح

ان کو مٹی میں ملانے کے لیئے جاتا ہے دل

شیخ اگر کعبہ میں خوش ہے، برہمن بت خانہ میں

اپنے اپنے طور پر ہر شخص بہلاتا ہے دل



قصد کرتا ہوں جو اٹھنے کا تو فرماتےہیں وہ

اور بیٹھو دو گھڑی صاحب کہ گھبراتا ہے دل

یہ نہی کہتے یہیں رہ جاؤ اب تم رات کو

بس انہی باتوں سے اکبر میرا جل جاتا ہے دل

اکبر الہ آبادی

Comments