خودداریوں کے خون کو ارزاں نہ کر سکے 



خودداریوں کے خون کو ارزاں نہ کر سکے 
ہم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کر سکے 
ہو کر خراب مے ترے غم تو بھلا دیے 
لیکن غم حیات کا درماں نہ کر سکے 
ٹوٹا طلسم عہد محبت کچھ اس طرح 
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے 
ہر شے قریب آ کے کشش اپنی کھو گئی 
وہ بھی علاج شوق گریزاں نہ کر سکے 
کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے 
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کر سکے 

مایوسیوں نے چھین لیے دل کے ولولے 
وہ بھی نشاط روح کا ساماں نہ کر سکے
ساحر لدھیانوی

Comments