لوگ عبرت کی سناتے ہیں کہانی میری 



لوگ عبرت کی سناتے ہیں کہانی میری 
ایسے برباد ہوئی یار جوانی میری
اس کے لاکٹ میں جڑا دیکھا سنہری زرقون
 ا س نے سینے سے لگائی ہے نشانی میری
کیسے شہزادی نے شہزادے کو برباد کیا؟
اپنے بچوں کو سنائی ہے کہانی میری
میں تو کاغذ پہ فقط لکھ کے دیا کرتا تھا
 دھیمے لہجے میں غزل اس نے سنانی میری
اب مرے دل کی تجھے خاص ضرورت بھی نہیں
 اب تو لوٹا دے مجھے چیز پرانی میری
اب تو مصرعے کی بھی ترتیب تجھے بھول گئی
 یاد رکھتی تھی تو ہر غزل زبانی میری
اب نہیں دیکھتی مجھ کو وہ پلٹ کر نجمی
 ہو گئی اتنی سمجھدار وہ دیوانی میری
عمیر نجمی

Comments