مرے خلاف عدالت بھی تھی زمانہ بھی

مرے خلاف عدالت بھی تھی زمانہ بھی
 مجھےتو جرم بتانا بھی تھا چھپانا بھی
اور اب کی بار تو ایسے کمان کھینچی ہے
 کہ تیر لے اُڑا شانہ بھی اور نشانہ بھی
جو سانپ غیر ضروری تھے مار ڈالے ہیں
 اب آستیں بھی سلامت ہے آستانہ بھی
ہماری کوزه گری سے جہان واقف تھا
 اور اب تو سیکھ لیے آئنے بنانا بھی
تم اس لیے بھی مجھے اجنبی نہيں لگتے
 کہ تم سے ایک تعلق تھا غائبانہ بھی
یہ مَےکشوں کا توازن بھی کیا توازن ہے
 کھڑے بھی رہنا سہولت سے لڑکھڑانا بھی
مرا نہيں مرے ایمان کا تقاضا تھا
 کہ مجھ سے عشق کرے کوئی کافرانہ بھی
یونہی تو میر کے در پر نہيں بٹھائےگئے
 ہمارے پاس غزل بھی تھی اور بہانہ بھی
عمران عامی

Comments