کِس کِس نے ساتھ چھوڑ دِیا دُھوپ چھاؤں میں

کِس کِس نے ساتھ چھوڑ دِیا دُھوپ چھاؤں میں
ذکرِ وفا،  نہیں ہے ہماری خطاؤں میں
موجِ ہَوا بھی ریت کی دِیوار بن گئی
 ہم نے خُدا تلاش کِیا ناخداؤں میں
شاید اِدھر سے قافلۂ رنگ و بُو گیا
 خوشبو کی سِسکیاں ہیں ابھی تک ہَواؤں میں
اب کے صَبا کی نرم مِزاجی کو کیا ہُوا
 بِکھرے پڑے ہیں تازہ شگُوفے ہَواؤں میں
مقدُور بھر جو راہ کا پتّھر بنے رہے
 وہ لوگ یاد آئے ہیں اکثر دُعاؤں میں
وِیرانیاں دِلوں کی بھی کُچھ کم نہ تھیں ادؔا
 کیا ڈھونڈنے گئے ہیں مُسافر خِلاؤں میں
ادؔا جعفری

Comments