وہ سراپا سامنے ہے استعارے مسترد



وہ سراپا سامنے ہے استعارے مُسترد
 چاند ، جگنُو ، پھول ، خوشبُو اور ستارے مُسترد
تذکرہ جن میں نہ ہو اُن کے لب و رُخسار کا
 ضبط وہ ساری کتابیں ، وہ شمارے مُسترد
کشتیءجاں کا ہے رشتہ جب کسی طوفان سے
 سب جزیرے رائیگاں ، سارے کنارے مُسترد
اُس کی خوشبو ہم سفر راہِ مسافت میں ہو گر
 خواب ، منظر ، رہ گزر ، دریا ، شرارے مُسترد
جب کوئی بُوئے وفا ان میں نہیں باقی رہی
 ساری سوغاتیں تمھاری ، خط تمھارے مُسترد
خاک و خُوں کا دیکھنا ہی جب مقدّر ہے ظفؔر
 زندگی کے رنگ سارے ، سب نظارے مُسترد
ظفر اقبال ظفؔر

Comments