آئے تھے اُن کے ساتھ ، نظارے چلے گئے



آئے تھے اُن کے ساتھ ، نظارے چلے گئے
وہ شب ، وہ چاندنی ، وہ تارے چلے گئے
شاید تمہارے ساتھ بھی ، واپس نہ آ سکیں
وہ ولولے ، جو ساتھ تمہارے چلے گئے
ھر آستاں ، اگرچہ تیرا آستاں نہ تھا
ھر آستاں پہ تُجھ کو پکارے چلے گئے
شامِ وصال ، خانۂ غربت سے رُوٹھ کر
تُم کیا گئے ، نصیب ھمارے چلے گئے
جاتے کہاں ھجومِ حشر میں ھم عاصیاںِ دھر
اے لطفِ یار ، تیرے سہارے چلے گئے
دُشمن گئے ، تو کشمکشِ دوستی ھو گئی
دُشمن گئے ، کہ دوست ھمارے چلے گئے
جاتے ھی اُن کے سیف ، شبِ غم نے آ لیا
رُخصت ھُوا وہ چاند ، ستارے چلے گئے
”سیف الدین سیف“

Comments