یادیں ہیں اپنے شہر کی اہل سفر کے ساتھ

یادیں ہیں اپنے شہر کی اہل سفر کے ساتھ
 صحرا میں لوگ آئےہیں دیوار و در کے ساتھ
منظر کو دیکھ کر پس منظر بھی دیکھئے
 بستی نئی بسی ہے پرانے کھنڈر کے ساتھ
سائے میں جان پڑ گئی دیکھا جو غور سے
 مخصوص یہ کمال ہے اہلِ نظر کے ساتھ
اک دن ملا تھا بام پہ سورج کہیں جسے
 الجھے ہیں اب بھی دھوپ کے ڈورے کگر کےساتھ
اک یاد ہے کہ دامنِ دل چھوڑتی نہیں
 اک بیل ہے کہ لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ
اس مرحلے کو موت بھی کہتے ہیں دوستو
 اک پل میں ٹوٹ جائیں جہاں عمر بھر کے ساتھ
میری طرح یہ صبح بھی فنکار ہے شکیبؔ
 لکھتی ہے آسماں پہ غزل آب زر کے ساتھ
شکیب جلالی

Comments