اس سے پہلے کہ مجھے وقت علیحدہ رکھ دے 

نثار ناسک
اس سے پہلے کہ مجھے وقت علیحدہ رکھ دے 
میرے ہونٹوں پہ مرے نام کا بوسہ رکھ دے 
حلق سے اب تو اترتا نہیں اشکوں کا نمک 
اب کسی اور کی گردن پہ یہ دنیا رکھ دے 
روشنی اپنی شباہت ہی بھلا دے نہ کہیں 
اپنے سورج کے سرہانے مرا سایہ رکھ دے 
تو کہاں لے کے پھرے گی مری تقدیر کا بوجھ 
میری پلکوں پہ شب ہجر یہ تارا رکھ دے 
مجھ سے لے لے مرے قسطوں پہ خریدے ہوئے دن 
میرے لمحے میں مرا سارا زمانہ رکھ دے 
ہم جو چلتے ہیں تو خود بنتا چلا جاتا ہے 
لاکھ مٹی میں چھپا کر کوئی رستہ رکھ دے 
ہم کو آزادی ملی بھی تو کچھ ایسے ناسکؔ 
جیسے کمرے سے کوئی صحن میں پنجرہ رکھ دے

Comments