میں نہ اپنوں سے نہ غیروں سے بہت بدظن ہوں

میں نہ اپنوں سے نہ غیروں سے بہت بدظن ہوں
ان دنوں اپنی ہی سوچوں سے بہت بدظن ہوں
اب تو یہ شک بھی گزرتا ہے کہ میں ہوں ہی نہیں
اپنے ہونے کے حوالوں سے بہت بدظن ہوں
یہ روایت کے امیں اور یہ جدت کے نقیب
سچ بتاؤں تو میں دونوں سے بہت بد ظن ہوں
ان کے لہجے میں تصنع ہے ، رویے میں نفاق
میں ترے شہر کے لوگوں سے بہت بدظن ہوں
روکتے ہیں جو مری دھوپ، مری نشو و نما
ایسے بے فیض درختوں سے بہت بدظن ہوں
زندگی تجھ سے محبت تو مجھے اب بھی ہے
ہاں مگر تیرے تقاضوں سے بہت بدظن ہوں
یہ جگاتے نہیں تعبیر کی خواہش تیمور
خواب گر میں ترے خوابوں سے بہت بدظن ہوں
تیمور حسن

Comments