تری قید سے میں یونہی رہا نہیں ہو رہا

تری قید سے میں یونہی رہا نہیں ہو رہا
مری زندگی ترا حق ادا نہیں ہو رہا
ترے جیتے جاگتے اور کوئی مرے دل میں ہے
مرے دوست کیا یہ بہت برا نہیں ہو رہا
مرا موسموں سے تو پھر گلہ ہی فضول ہے
تجھے چھو کے بھی میں اگر ہرا نہیں ہو رہا
کوئی شعر ہے جو میں چاہ کر بھی نہ لکھ سکا
کوئی واقعہ ہے جو رونما نہیں ہو رہا
یہ جو ڈگمگانے لگی ہے تیرے دیے کی لو
اسے مجھ سے تو کوئی مسئلہ نہیں ہو رہا
مجھے علم ہے کہ شگاف ہے مری ناؤ میں
جبھی پار جانے کا حوصلہ نہیں ہو رہا

تہذیب حافی

Comments