کچھ دن ہوئے کہ شہر تمنا اداس ہے

ملک مشتاق عاجز (اٹک) آپ کا جواں سال بیٹا دریا میں ڈوب کر اس فانی دنیا سے کوچ کر گیا تھا اس کی جدائی کا اثر اس غزل میں دیدنی ہے
کچھ دن ہوئے کہ شہرِ ّتمنا اُداس ہے
دل کیا اُجڑ گیا ہے کہ دُنیا اُداس ہے
گہنا گیا ہے جب سے مرے گھر کا آفتاب
تاروں کا روپ ، چاند کا چہرا اُداس ہے
لگتا ہے تتلیوں کے کوئی رنگ لے اُڑا
لگتا ہے جگنوؤں کا اُجالا اُداس ہے
کہتے ہیں ایک شخص کی دُنیا اُجاڑ کر
نادم ہے ، شرم سار ہے ، دریا اُداس ہے
دو لخت ہو گیا ہے جہانِ تصوّرات
آدھے میں چہل پہل ہے ، آدھا اُداس ہے
اب دیکھتا ہے مجھ کو تو کہتا ہے آئنہ
ّبچہ بچھڑ گیا ہے تو بوڑھا اُداس ہے
عاجزؔ کسی بھی حال میں شکوہ روا نہیں
کیا تو بھرے جہاں میں اکیلا اُداس ہے؟

ملک مشتاق عاجز

Comments